Published: 23-10-2023
قاہرہ: مصر کے دارالحکومت میں غزہ اور اسرائیل کی صورت حال پر ہونے والی ’’امن سمٹ‘‘ میں عرب ممالک نے اسرائیل کی مذمت کی لیکن یورپی ممالک نے صرف حفاظتی راہداری کے قیام کے مطالبے سے کام چلایا اور اپنے دوست کی وحشیانہ بمباری کی کھل کر مذمت نہیں کی۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیل اور غزہ کی جھڑپوں سے پیدا ہونے والی صورت حال پر مصر میں ہونے والے امن اجلاس میں عالمی قوتیں منقسم نظر آئیں اور اجلاس بے نتیجہ ختم ہوگیا۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس اہم عالمی اجلاس میں اسرائیل اور اعلیٰ امریکی حکام نے شرکت نہیں کی جس کی وجہ سے اجلاس میں جنگ بندی کے طریقہ کار پر اتفاق نہیں ہوسکا اور نہ مشترکہ اعلامیہ جاری ہوسکا۔اجلاس میں عرب ممالک کے رہنماؤں نے اسرائیل کے فلسطین پر دہائیوں سے جاری جارحیت اور تشدد کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہوئے غزہ پر حالیہ بمباری کی مذمت کی اور معصوم جانوں کے ضیاع پر دکھ کا اظہار کیا۔دوسری جانب یورپی ممالک نے اسرائیلی بمباری کی کھل کر مذمت نہیں کی اور صرف جنگ کے دوران شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے حفاظتی راہداری کے قیام کے مطالبے پر ہی اکتفا کیا۔میزبان ملک مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے شرکاء کی آمد پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اس مسئلے کا واحد حل ایک آزاد فلسطینی ریاست ہے۔فلسطین اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے کہا کہ ہم اسرائیلی دھمکیوں میں آکر اپنی سرزمین کو چھوڑ کر کسی صورت کہیں اور منتقل نہیں ہوں گے۔ اسرائیل کو ناجائز قبضہ ختم کرنا ہوگا۔اردن کے شاہ عبداللہ نے کہا کہ عرب دنیا اپنے مغربی ممالک کے دوستوں سے جو پیغام سن رہی ہے وہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک فلسطینیوں کی زندگی اسرائیلیوں سے کم اہمیت رکھتی ہے۔یورپی کونسل کے صدر چارلس مشیل نے کہا کہ سربراہی اجلاس کا بنیادی مقصد ایک دوسرے کا موقف سننا تھا تاہم ابھی ہمیں مزید مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔برطانوی وزیر خارجہ جیمز کلیورلی نے اپنی تقریر میں اسرائیلی حکومت کے ساتھ ہونے والی گفتگو سے متعلق بتایا کہ میں نے اسرائیل سے تحمل سے کام لینے اور بین الاقوامی قانون کے مطابق شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔فرانس کی وزیر خارجہ کیتھرین کولونا نے غزہ میں شہریوں تک امداد پہنچانے کے لیے محفوظ راہداری قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اسے جنگ بندی کے لیے لازمی جز قرار دیا۔ جرمنی کی وزیر خارجہ انالینا بیربوک نے کہا کہ غزہ کی صورت حال پر تشویش ہے لیکن حماس کے خلاف جنگ کو فلسطینیوں کے خلاف جنگ نہیں سمجھنا چاہیے۔ عام فلسطینیوں کی ہلاکت سے حماس کو فائدہ ہوگا۔واضح رہے کہ 7 اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے میں 1400 اسرائیلی مارے گئے تھے جب کہ اس کے بعد سے اسرائیلی بمباری میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی مجموعی تعداد 4385 تک جا پہنچی ہے اور 14 ہزار سے زائد زخمی ہیں۔