Published: 12-11-2023
اسلام آباد: ورلڈ بینک کی جانب سے اسپانسر کیے جانے والے6.7 ارب ڈالر مالیت کے نصف سے زائد وفاقی منصوبوں پر پیش رفت غیر تسلی بخش ہے جب کہ ورلڈ بینک نے اپنی رپورٹ میں ان منصوبوں پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے منصوبوں پر پیش رفت کو غیر تسلی بخش قرار دے دیا ہے۔ورلڈ بینک نے وزارت معاشی امور کے ساتھ مل کر 6.7 ارب ڈالر کے20 منصوبوں کا جائزہ لیا ہے، حکام کے مطابق جائزے میں انکشاف ہوا ہے کہ صرف 2.9 ارب ڈالر کے منصوبے ٹریک پر پائے گئے ہیں،3.4 ارب ڈالر کے منصوبوں پر پیش رفت جزوی طور پر اطمینان بخش پائی گئی ہے جبکہ 453 ملین ڈالر کے منصوبوں کو مسائل کا شکار قرار دیا گیا ہے۔سب سے زیادہ بے قاعدگیاں واپڈا کے محکمے میں پائی گئی ہیں، جس پر دہائیوں سے ریٹائرڈ جرنیل حکمرانی کر رہے ہیں، اس کے علاوہ نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی، ایف بی آر، وزارت منصوبہ بندی، وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک سے متعلق منصوبے بھی مسائل کا شکار ہیں، جس کی وجہ سے ان منصوبوں سے حاصل ہونے والے فوائد میں تاخیر ہوئی ہے۔جائزہ رپورٹ کے مطابق پاکستان نے رواں سال جولائی میں بلوچستان میں سیلات متاثرین کی بحالی کیلیے ورلڈ بینک سے 213 ملین ڈالر کا قرضہ لیا تھا، لیکن تاحال پراجیکٹ منیجمنٹ یونٹ غیر فعال ہے اور فنڈز وصولی کیلیے کوئی بینک اکاؤنٹ بھی نہیں کھولا گیا ہے، جس کی وجہ سے ابھی تک ورلڈ بینک سے ایک پائی بھی وصول نہیں کی جاسکی ہے۔پاکستان نے2019 میں ٹیکس نیٹ بڑھانے کیلیے ورلڈ بینک سے400 ملین ڈالر کا قرضہ لیا تھا، لیکن منصوبے پر عمل نہ کیا جاسکا اور ایک بار پھر دونوں فریق منصوبے کو ری اسٹرکچر کر رہے ہیں،137 ارب ڈالر کا اسٹیٹ بینک کا فنانشل انکلوژن اینڈ انفراسٹرکچر پراجیکٹ جس کو دسمبر 2022 میں مکمل ہونا تھا، دو بار توسیع حاصل کرچکا ہے۔