فلسطینیوں کی نسل کشی پر عالمی عدالت میں اسرائیل کیخلاف سماعت کل تک ملتوی

Published: 12-01-2024

Cinque Terre

دی ہیگ: اقوام متحدہ کی بین الاقوامی عدالت برائے انصاف میں اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی نسل کشی پر جنوبی افریقا کے مقدمے کے پہلے روز سماعت میں  وکلا نے دلائل دیے، جس کے بعد سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق عالمی عدالت انصاف میں جنوبی افریقا نے 84 صفحات پر مشتمل پٹیشن دائر کی ہے جس میں اسرائیل کو غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔عالمی عدالت نے دو روزہ سماعت کا آغازآج (جمعرات) کو کیا، جس کی سنوائی مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے 15 ججوں کا پینل کر رہا ہے جب کہ درخواست گزار جنوبی افریقا اور دفاع کرنے والے اسرائیل کے نمائندے بھی بطور جج حصہ ہیں۔اس وقت عالمی عدالت انصاف میں 15 ججز جن ممالک سے ہیں ان میں امریکا، روس، چین، فرانس اور بھارت بھی شامل ہیں۔ امریکا اور روس بالترتیب عدالت کے صدر اور نائب صدر ہیں۔جنوبی افریقا کی اس درخواست کی پاکستان سمیت 13 ممالک نے حمایت کی تھی جب کہ اسے او آئی سی اور انٹرنیشنل جیوش اینٹی زوئینسٹ نیٹ ورک سمیت 5 عالمی ادارے بھی اسرائیل کے خلاف مقدمے کے حق میں ہیں۔اس مقدمے میں عدالت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اسرائیل کو غزہ میں فوجی آپریشن روکنے کا حکم دیا جائے تاہم اسرائیل نے نسل کشی کے الزام کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے سختی سے مسترد کر دیا تھا۔الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق تین گھنٹوں کی طویل سماعت میں جنوبی افریقہ نے اسرائیل کے خلاف عائد نسل کشی کا کیس رکھا اور وکلا نے اسرائیل کے اقدامات اور اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے بیانات بھی عالمی عدالت کے سامنے پیش کیے۔جنوبی افریقہ کے وکلا نے عدالت کو بتایا کہ مقدمے کی اس سطح پر وہ یہ اس کا تعین نہیں کرسکتے ہیں کہ آیا اسرائیل نے نسل کشی کے حوالے سے اپنے معاہدوں پر کتنا عمل کیا اور کس قدر خلاف ورزی کی ہے اور یہ میرٹ کی سطح پر واضح کیا جاسکتا ہے۔عالمی عدالت میں جنوبی افریقہ کی نمائندگی کرنے والے وکلا میں سب سے پہلے عدیلہ حاسم نے کیس پیش کیا اور بتایا کہ اسرائیل نے نسل کشی کے خلاف معاہدے پر دستخط کر رکھے ہیں لیکن بدترین خلاف ورزیوں کا مرتکب ہو رہا ہے۔انھوں نے غزہ میں شہریوں کے قتل کی تصاویر دکھاتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ نسل کشی کی پہلی کارروائی غزہ میں فلسطینیوں کی بلاامتیاز قتل و غارت ہے، جہاں نومولود، بزرگ اور خواتین سمیت کسی کا لحاظ نہیں رکھا گیا۔اس کے بعد ٹیمبیکا نگکوکیٹوبی نے جنوبی افریقہ کا مقدمہ پیش کیا، جنھوں نے اسرائیل کے سیاسی رہنماؤں، فوجی کمانڈروں اور سرکاری عہدوں پر براجمان افراد کے نسل کشی کے ارادوں اور اعلانات کے حوالے پیش کیے۔وکلا کے دلائل کے بعد عدالت میں سوال و جواب کا سیشن ہوا جہاں جنوبی افریقہ کے بین الاقوامی قانون کے پروفیسر جان ڈوگارڈ نے نشان دہی کی کہ نسل کشی کے خلاف عالمی کنونشن کا تعلق عالمی برادری سے ہے اور اس کا تحفظ کرنا سب کی ذمہ داری ہے۔ایک اور وکیل میکس ڈو پلیسز نے جنوبی افریقہ کی نمائندگی کرتے ہوئے بتایا کہ اقوام متحدہ کے ادارے اور ماہرین کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی تنظیموں، اداروں اور ریاستیں مجموعی طور پر سمجھتی ہیں کہ اسرائیل نسل کشی کا مرتکب ہوا ہے اور خبردار کیا ہے کہ فلسطین کے عوام انتہائی خطرات سے دوچار ہیں۔دوسری جانب اسرائیل اس کے برخلاف مؤقف پیش کرتا ہے کہ وہ 7 اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد اپنا حق دفاع استعمال کر رہے ہیں کیونکہ اس حملے میں ایک ہزار 139 افراد مارے گئے اور 200 سے زائد افراد گرفتار کیے گئے تھے۔جنوبی افریقہ کے وکلا نے دلائل کا آغاز اس مطالبے سے کیا کہ اسرائیلی فوج فوری طور پر غزہ میں اپنی کارروائیاں روک دے اور عدالت کا بتایا کہ 7 اکتوبر سے اب تک اسرائیل کی وحشت ناک کارروائیوں کے دوران اب تک 23 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوگئے ہیں۔دی ہیگ میں جنوبی افریقہ کے نمائندے ووسیموزی میڈونسیلا نے کہا کہ جنوبی افریقہ سمجھتا ہے کہ اسرائیل نے فلسطین کے شہریوں کے خلاف 1948 سے نسل کشی جاری رکھی ہوئی ہے۔جنوبی افریقہ کے وزیر قانون رونالڈ لیمولا نے بتایا کہ اسرائیل نے حماس کے 7 اکتوبر کے حملوں کے جواب میں سرخ لکیر عبور کردی ہے، حملوں کی آڑ میں ہونے والے نسل کشی کے اقدامات کسی صورت حق دفاع نہیں ہوسکتے۔خیال رہے کہ بین الااقوامی عدالت برائے انصاف جنوبی افریقا کے اسرائیل کے خلاف دائر مقدمے میں صرف اپنی رائے دے سکے گا کیونکہ یہ مقدمہ فوجداری مقدمہ نہیں ہے۔