Published: 07-03-2024
اسلام آباد: وزیراعظم شہبازشریف نے قومی ایئر لائن (پی آئی اے) کی نجکاری پر عمل درآمد کے لئے حتمی شیڈول طلب کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ سستی اور لاپرواہی برداشت نہیں کی جائے گی جبکہ شفافیت کو سوفیصد یقینی بنایا جائے۔تفصیالت کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت پی آئی اے کی نجکاری اور ایف بی آر کی ری اسٹرکچرکنگ کے حوالے سے اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا۔ جس میں سینیٹر اسحاق ڈار، خواجہ محمد آصف، عطاءاللہ تارڑ، رانا مشہود احمد خان،مصدق ملک، احد چیمہ، شزہ فاطمہ خواجہ، رومینہ خورشید عالم، علی پرویز ملک کے علاوہ ڈپٹی چئیرمین پلاننگ کمیشن ڈاکٹر جہانزیب، گورنراسٹیٹ بینک، چئیرمین ایف بی آر، سیکریٹری نجکاری اور دیگر اعلی حکام نے شرکت کی جبکہ ممتازبینکارمحمد اورنگزیب ویڈیو لنک پر موجود تھے۔اجلاس کے آغاز میں وزیراعظم نے ڈاکٹر شمشاد اختر کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی کاوشوں پر آج ذاتی طورپر شکریہ ادا کرتا ہوں۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ سینیٹر اسحاق ڈار آئی ایم ایف کے ساتھ ایک ٹھوس بنیاد بناکر گئے تھے جس کی وجہ سے بعد میں اس معاملے میں پیش رفت ممکن ہوئی۔وزیراعظم نے ڈاکٹر شمشاد اختر کی پریزنٹیشن کو جامع قرار دیتے ہوئے ان کو خراج تحسین پیش کیا۔وزیراعظم شہبازشریف نے قومی ائیر لائن پی آئی اے کی نجکاری پر عمل درآمد کے لئے حتمی شیڈول طلب کیا اور وزارت نجکاری ضروری اقدامات کے بعد آئیندہ دوہ روز میں شیڈول پیش کرنے کی ہدایت کی۔وزیراعظم نے سختی سے ہدایت کی کہ اس عمل میں کسی قسم کی سستی اور لاپرواہی برداشت نہیں کی جائے گی۔ وزیراعظم نے ہدایت کی کہ تمام مراحل میں شفافیت کو سوفیصد یقینی بنایا جائے۔اجلاس میں پی آئی اے کی نجکاری کی اب تک کی پیش رفت اور اس ضمن میں آئندہ کے مراحل پر غور کیاگیا۔اس کے علاوہ اجلاس میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی ری اسٹرکچرنگ، آٹو میشن، نظام میں شفافیت کو یقینی بنانے، عالمی معیار کے مطابق ڈھانچہ جاتی اصلاحات، مراعات کے ذریعے ٹیکس میں اضافے، کرپشن و اسمگلنگ کے خاتمے، ان لینڈ ریونیو اور کسٹم کے شعبے الگ کرنے اور ٹیکس ریٹ میں کمی پر پیش کردہ تجاویز کا تفصیلی جائزہ لیا۔وزیراعظم شہبازشریف نے ایف بی آر کی آٹو میشن کے نظام کے مجوزہ روڈ میپ کی اصولی منظوری دیتے ہوئے ہدایت کی کہ اب اس روڈ میپ پر وقت کے واضح تعین کے ساتھ عمل درآمد کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اہداف کا تعین نہ صرف حقیقت پسندانہ ہو بلکہ عمل درآمد کی رفتار کے لحاظ سے خطے میں تیز ترین بھی ہو، ہمیں چوبیس گھنٹے مسلسل محنت سے یہ ہدف حاصل کرنا ہے۔ ہمارے پاس ضائع کرنے کے لئے مزید ایک لمحہ بھی نہیں اور یہ پاکستان کے روشن مستقبل اور معاشی بحالی کا سوال ہے۔وزیراعظم نے وزارت قانون کو ہدایت کی کہ ٹیکس وصولیوں اور ریونیو سے متعلق عدالتوں میں زیرالتوامقدمات اورقانونی تنازعات کے حل کے لئے فی الفور سفارشات پیش کرے تاکہ انہیں حل کرکے قومی خزانے کو 1.7 ٹریلین روپے کی فراہمی کے راستے میں حائل رکاوٹیں دور ہوسکیں۔وزیراعظم نے وزارت قانون کو ایف بی آر میں قانونی شعبہ کے قیام، ڈرافٹنگ کو قانون کے مطابق بنانے اور وکلا کی خدمات لینے کے حوالے سے تجاویز پیش کرنے کی ہدایت بھی کی اور کہا کہ اصلاحات پر عمل درآمد کے نتیجے میں ہی 6 سے 7 فیصد قومی شرح ترقی کاحصول ممکن ہوسکتا ہے۔وزیراعظم شہبازشریف نے کہا کہ ہمیں اپنے ریونیو اور ٹیکس کے نظام کو جدید بنانےکے لئے سرمایہ کاری کرنا ہوگی، مراعات پر مبنی ٹیکس نظام لانا چاہتے ہیں، ٹیکس کا بوجھ کم کرنے کی پوری خواہش ہے لیکن عوام کی ترقی اور سماجی خدمت میں کاروباری برادری کو بھی اپنا کردار ادا کرکے مدد کرنا ہوگی۔وزیراعظم نے کہاکہ ہمیں تھرڈ پارٹی آڈٹ کا مؤثر نظام یقینی بنانا ہوگا جس میں ہمارا سسٹم اب تک ناکام رہا ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ دنیا میں سکہ بند نظام آچکے ہیں جنہیں اپنا کر ہم بہتری لاسکتے ہیں۔وزیراعظم شہبازشریف نے کہاکہ تمام ٹیکسوں پر دئیے جانے والے استثنیٰ کی مکمل جانچ پڑتال ہونی چاہیے، ایس ایم ایز کو ترقی دی ہوتی تو آج پاکستان دنیا کے ترقی کرجانے والے ممالک سے پیچھے نہ ہوتا، چھوٹی اوردرمیانے درجے کی صنعت کی حوصلہ افزائی چالیس سال میں نہیں کرسکے، اب اس شعبے کو فروغ دینا ہوگا۔ڈاکٹر شمشاد اختر نے اجلاس کو بتایا کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی پاکستان میں دنیا بھر کے مقابلے میں کم 9.5 فیصد ہے جس میں اضافہ کرنا پاکستان کی ترقی کے لئے نہایت ضروری ہے جبکہ 55.6 فیصد افراد کوئی ٹیکس نہیں دیتے جبکہ صرف3.3 فیصدٹیکس دیتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ 2 لاکھ لوگ 90 فیصد ٹیکس دیتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان کا 1.7 ٹریلین روپے قانونی عمل کی وجہ سے پھنسا ہوا ہے، فیڈرل پالیسی بورڈ کے قیام، دنیا کے دیگر ممالک کی طرز پرمحکمہ کسٹم کی تشکیل نو اور لیگل اینڈ ریگولیٹری فریم ورک میں اصلاحات کی تجاویز پر بھی روشنی ڈالی۔ فیڈرل پالیسی بورڈ طویل المدتی ٹیکس پالیسی وضع کرے گا تاکہ پالیسی کا تسلسل رہے۔