Published: 24-03-2024
کراچی: سابق ٹیسٹ کپتان، سابق چیف سلیکٹر اور ہیڈ کوچ معین خان نے کہا ہے کہ غیر ملکی کوچز ڈھونڈنے کے بجائے پاکستان میں موجود اچھے اور بہترین کوچز کو مواقع فراہم کیے جائیں، جب تک اعظم خان کھیل رہا ہے پی سی بی میں کوئی عہدہ قبول نہیں کروں گا۔ان خیالات کا اظہار معین خان نے کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا اور کہا کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کو اس وقت اچھے آل راؤنڈرز اور اسپنرز کی ضرورت ہے، شاہین شاہ آفریدی کی کپتانی پر تنقید قبل از وقت ہے، فٹنس اور کارکردگی کی بنیاد پر ہر کھلاڑی کو موقع ملنا چاہیے، عماد وسیم مستقبل میں پاکستان کے لیے سود مند ثابت ہو سکتے ہیں۔معین خان نے ان خیالات کا اظہار میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا، کوئٹہ گلیڈییٹر کے ڈائریکٹر کی ذمہ داری ادا کرنے والے معین خان نے کہا کہ پاکستان میں اچھے اور بہترین کوچز موجود ہیں، اگر غیر ملکی کوچ ہی لانا ہے تو کوچنگ ڈیولپمنٹ پلان بھی تیار کیا جائے تاکہ اگر مقامی کوچز نا اہل ہیں تو ان کی بہتری کے لیے پروگرام مرتب کیا جا سکے، مجھے معلوم نہیں کہ مقامی کوچز میں کیا کمی ہے جو ان پر غور نہیں کیا جاتا، پاکستان میں اچھے کوچز کا ٹیلنٹ موجود ہے، پی سی بی کو اپنے جواہر کی طرف دیکھنا چاہیے۔معین خان نے کہا کہ شاہین شاہ آفریدی نے صرف ایک سیریز میں کپتانی کی ذمہ داری اداکی ہے اور اسے تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا گیا ، کسی بھی کھلاڑی کو ذمہ داری ادا کرنے کے لیے وقت اور موقع دیا جانا چاہیے، طویل مدت کے لیے کپتان بنانا ضروری ہے، ایک یا دو سیریز سے صلاحیتوں کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا، غیر ضروری دباؤ کھلاڑی کی صلاحیتوں کو نقصان پہنچاتا ہے، طویل مدت کے لیے ذمہ داری سونپی جائے تو اس سے کپتان اور کھلاڑی میں اعتماد اور یکسوئی پیدا ہوتی ہے جو ٹیم کے لیے سود مند اور کارگر رہتی ہے۔انہوں نے کہا کہ کرکٹ میں فٹنس اور فارم بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے، متعدد کھلاڑی 40 برس سے زائد عمر ہونے کے باوجود کھیل رہے ہیں، ماضی میں بھی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ زائد العمر کھلاڑیوں نے فٹنس اور کارکردگی کی بنیاد پر اپنا سکہ جمائے رکھا،عماد وسیم کی عمر اور فٹنس اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ وہ مستقبل میں اگے چل کر پاکستان کرکٹ کے لیے سود مند ثابت ہو سکتے ہیں، ان کی موجودگی پاکستان کرکٹ ٹیم کو فائدہ دے گی، پی سی بی کو ہر اس کھلاڑی کو خوش امدید کہنا چاہیے جو فٹنس اور کارکردگی کی بدولت ملک کے لیے خدمات انجام دے سکتا ہے۔معین خان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو اس وقت اچھے آل راؤنڈرز اور اسپنرز کی ضرورت ہے، محمد نواز کے علاوہ کوئی دوسرا کھلاڑی نظر نہیں آتا لیکن بدقسمتی سے محمد نواز کی کارکردگی میں تسلسل موجود نہیں ہے، اس حوالے سے عماد وسیم بہترین متبادل ہوسکتے ہیں،کسی بھی معاملے پر گارنٹی لینا یا گارنٹی دینا دونوں غلط ہے، کسی بھی بات پر گارنٹی نہیں دی جا سکتی،عماد وسیم کا پاکستان کے لیے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ واپس لینا قابل تحسین عمل ہے۔سابق کپتان نے کہا کہ کھلاڑی کو پیسے کمانے کے چکر میں پڑنے کے بجائے ہر طرز کی کرکٹ کھیلنے کے لیے تیار رہنا چاہیے،بعض اوقات کھلاڑی جذباتی ہو کر کھیل سے ریٹائرمنٹ حاصل کر لیتے ہیں، کچھ معاملات کی وجہ سے نظر انداز کرنے سے کھلاڑی کا دل ٹوٹ جاتا ہے، اگر کھلاڑی ایسے حالات میں مجبور ہو جاتا ہے تو اس کا قصوروار پی سی بی ہے لیکن اگر کوئی کھلاڑی سمجھتا ہے کہ اس کی کرکٹ موجود ہے تو اسے ریٹائرمنٹ لینے کے بجائے حالات کا سامنا کرتے ہوئے جدوجہد جاری رکھنی چاہیے۔معین خان نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جب تک میرا بیٹا اعظم خان کرکٹ کھیل رہا ہے، میں پی سی بی میں کوئی کردار ادا نہیں کروں گا، ایسی صورت میں مفادات کا ٹکراؤ ہو جاتا ہے،ایک اور سوال کے جواب میں معین خان نے کہا کہ پی سی بی کے رویے کے سبب رواں سال کراچی میں رمضان کرکٹ کی رونقیں بحال نہیں ہو سکیں، رمضان کرکٹ ایونٹس کے حوالے سے پی سی بی کی کڑی سخت شرائط ہیں، چیئرمین بورڈ محسن نقوی سے درخواست کی ہے کہ مقامی آرگنائزرز کو ضروری سہولیات فراہم کی جائیں ان کو این او سی کی مشکل شرائط سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، پی سی بی کی ذمہ داری ہے کہ وہ کرکٹ کی ترقی کے لیے اقدامات کرے، امید ہے کہ رمضان کرکٹ کی این او سی کی کڑی شرائط کے فیصلے پرچیئرمین پی سی بی نظر ثانی کریں گے