عمران خان گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کی زیرقیادت املاک کو نقصان پہنچایا گیا، ہیومن رائٹس کمیشن

Published: 06-08-2024

Cinque Terre

 لاہور: انسانی حقوق کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عمران خان کی گرفتاری کےبعد پی ٹی آئی کی زیرقیادت ہجوم نے کئی شہروں میں سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا ۔ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آرسی پی) نے پاکستان میں 2023ء کے دوران انسانی حقوق کی صورتحال سے متعلق رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال ملک میں ناقابل اصلاح سیاسی تقسیم نظر آئی جو متشدد کارروائیوں کی شکل اختیار کرگئی ۔ ایک سیاسی جماعت کے خلاف بدترین کریک ڈاؤن کیا گیا۔رپورٹ کے مطابق غیرمسلم شہریوں کی عبادت گاہوں پرحملے، جبری مذہب تبدیلی کا سلسلہ بھی جاری رہا جب کہ سال 2023 میں ریکارڈ 789 دہشت گرد حملے ہوئے جن میں 1524 افراد جاں بحق ہوئے۔ 90 فیصد ہلاکتیں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ہوئیں۔ایچ آرسی پی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے گزشتہ سال بچوں سے جنسی زیادتی کے 4213 واقعات پیش آئے۔ 2023 میں کم ازکم 102 افراد کو سزائےموت سنائی گئی تاہم کسی بھی ملزم کو پھانسی نہیں دی گئی۔ 2022 میں 98 افراد کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔ سزائے موت پانے والوں میں 2 پولیس اہل کار اور ایک معروف سیاسی شخصیت کے بیٹے کو بھی اپنی بیوی کے بہیمانہ قتل کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی۔رپورٹ کےمطابق سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کےبعد پی ٹی آئی کی زیرقیادت مشتعل ہجوم نے پشاور میں ریڈیوپاکستان کی عمارت سمیت کئی شہروں میں سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا جس کے نتیجے میں پارٹی کارکنوں اورحامیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا، جس کے نتیجے میں غیرمصدقہ ہلاکتیں بھی ہوئیں۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 2023 میں ملک میں 789 دہشتگردحملے ہوئے جن کے نتیجے میں 1524 افراد جاں بحق جبکہ 1463 زخمی ہوئے۔ یہ اموات گزشتہ 6 سال کی بلندترین سطح پر ہیں۔ 2023 میں اس سے پچھلے سال کی نسبت تشدد کے واقعات میں 56 جبکہ عسکریت پسندوں کے حملوں میں 69 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ سب سے زیادہ 90 فیصد ہلاکتیں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ہوئیں۔ایچ آرسی پی کے مطابق مبینہ طور پر 618 افراد پولیس مقابلوں مارے گئے، 261 کیسز میں متاثرین کی لاشیں ملیں۔ اسی طرح 82 مردوں اور 7 خواتین کے جبری طور پر لاپتا کیے جانے کے واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں کئی صحافی اورسیاسی افراد بھی شامل ہیں، 34 افراد ہجوم کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنے اورمارے گئے۔ کراچی میں اسٹریٹ کرائم کے 90 ہزار واقعات رپورٹ ہوئے ، ملک بھرمیں ڈکیتی مزاحمت پر 134 افراد مارے گئے۔اگست 2023 میں جڑانوالہ میں ایک غیرمسلم شخص کی طرف سے قرآن پاک کی مبینہ بے حرمتی کے واقعے پر مسیحی برادری کے درجنوں گھروں اور گرجاگھروں کو نذرآتش کیا گیا، احمدی کمیونٹی کی عبادت گاہوں پر 35 حملے کیے گئے، غیرمسلموں کی عبادت گاہوں پر 29 حملے ہوئے جب کہ مذہبی عقیدے کی بنیادپر 11 افراد قتل ہوئے۔سندھ اوربلوچستان میں صحافیوں ، سیاسی کارکنوں کو خاص طور پرقلیل مدت کے لیے جبری گمشدگیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ سندھ سے لاپتا ہونے والے متعدد سیاسی کارکنوں کی لاشیں ملیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 2022 سے شروع ہونیوالی سیاسی افراتفری اور تقسیم 2023 میں بھی جاری رہی ، عام شہریوں کے ٹرائل کے لیے فوجی عدالتیں بحال کی گئیں۔2023 میں کم ازکم 226 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا، 700 اغوا ہوئیں جب کہ 631 کے ساتھ جنسی زیادتی اور 277 کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کو سائبرہراسانی کے 2224 کیسز موصول ہوئے جن میں زیادہ تر پنجاب کی خواتین کی طرف سے درج کروائے گئے۔ اسی طرح 9 خواجہ سراؤں کو غیرت اور 9 کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔رپورٹ میں افغان مہاجرین کی واپسی،سیلاب متاثرین، معاشی اورسیاسی صورتحال،قومی اورصوبائی اسمبلیوں میں قانون ساز ی اور آئینی ترامیم ، انصاف کی فراہمی سمیت دیگر شعبوں کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔