شاداب کو کپتانی ملنے پر قومی ٹیم کے بڑے نام مبارکباد دینے سے کیوں گریزاں؟

Published: 15-03-2023

Cinque Terre

  کراچی: افغانستان کے خلاف تین ٹی20 میچز پر مشتمل سیریز کیلئے پاکستان کرکٹ ٹیم کے بڑے ناموں بابراعظم، شاہین آفریدی، محمد رضوان اور فخر زمان کو آرام کروانے پر ایک بار پھر گروپ بندی کی باز گشت سنائی دینے لگی ہے۔گزشتہ روز پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے 18 رکنی اسکواڈ کا اعلان کیا تھا جس کیلئے کپتان شاداب خان کو مقرر کیا گیا، اسکواڈ میں عبداللہ شفیق، اعظم خان، فہیم اشرف،افتخاراحمد، نسیم شاہ، صائم ایوب، شان مسعود،طیب طاہر، زمان خان، احسان اللہ، عمادوسیم، محمدحارث، محمد نواز اور محمد وسیم جونیئر کے علاوہ تین رزیرو کھلاڑی بھی شامل ہیں جن میں ابرار احمد، حسیب اللہ خان اور اسامہ میر کے نام بھی ہیں۔بابراعظم، فخر زمان، محمد رضوان اور شاہین آفریدی ٹوئٹر پر کافی متحرک رہتے ہیں تاہم چاروں کرکٹرز کی جانب سے شاداب خان کو کپتان بننے پر کوئی مبارکباد تک نہیں دی گئی جس سے ٹیم میں گروپ بندی کی خبریں زور پکڑ رہی ہیں۔دوسری جانب اطلاعات ہیں کہ بابر، رضوان، شاہین اور فخر زمان متحد ہیں جس کی وجہ سے بورڈ انہیں توڑنے کی کوشش کررہا ہے جبکہ نئے کھلاڑیوں کو موقع دینے کی غرض سے کچھ کرکٹرز کو صاف پیغام پہنچایا جارہا ہے۔میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پی سی بی کی جانب سے اعلیٰ عہدیدار کے فون کرنے پر کچھ کھلاڑیوں نے جواب دیا اور معاملے کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے جبکہ ایک سینئیر کرکٹر فون بند کردیا۔قبل ازیں ایکسپریس نیوز نے خبر چلائی تھی کہ سابق کرکٹر راشد لطیف اور رمیز راجا نے کپتانی پر ٹاپ کھلاڑیوں کو آپس میں لڑانے کا خدشہ ظاہر کیا تھا، اس حوالے سے راشد لطیف کا کہنا ہے کہ یہ صرف کپتانی کا معاملہ نہیں ہے، یہ پلیئرز پاور کا معاملہ ہے، بورڈ چار کھلاڑیوں کو تقسیم کرنا چاہتا ہے، اس سے پلیئرز میں عدم تحفظ پیدا ہوگا جبکہ ان کا اتحاد بھی متاثر ہوگا، تقسیم کرو اور حکومت کرو والے فارمولے پر عمل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور میں نہی سمجھتا کہ یہ چیز کامیاب ہوگی۔بورڈ کے سابق چیئرمین رمیز راجا کا کہنا تھا کہ بابر، شاداب اور شاہین کو کپتانی کی جنگ میں الجھانے کی کوشش نہ صرف ڈریسنگ روم کے ماحول کو متاثر کرے گی بلکہ یہ بابر کی قیادت میں لکھی جانے والی عظیم وائٹ بال اسٹوری کو بھی تباہ کردے گی۔ براہ مہربانی تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے کہ کس طرح 90 کی دہائی میں پاکستانی کرکٹ کو تباہ کیا گیا تھا۔