Published: 29-03-2023
شارجہ: افغانستان کیخلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز میں ناکام تجربوں نے سینئرز کی قدر بڑھا دی۔افغانستان سے دوسرے ٹی ٹوئنٹی اور سیریز میں شکست کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے شاداب خان نے کہا کہ قوم چاہ رہی تھی کہ پی ایس ایل میں پرفارم کرنے والے نوجوان کرکٹرز کو موقع ملنا چاہیے کیوں کہ وہ اچھے اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ کھیلتے ہیں، کنڈیشنز بہت مختلف تھیں، کوئی بھی ٹیم ہوتی تو شاید اس طرح کی بولنگ کے مقابل مشکل محسوس کرتی۔انہوں نے کہا کہ نوجوان کرکٹرز میں ٹیلنٹ اور یہی ہمارا مستقبل ہیں،ہمیں ان کو تسلسل کے ساتھ مواقع دینا چاہیں،قوم ہی کھلاڑیوں کو اسٹار بناتی ہے، پی ایس ایل میں پرفارمنس کی بنیاد پر ان کو سپورٹ کیا تو اب مشکل وقت میں بھی کرنا چاہیے۔شاداب کا کہنا تھا کہ ناکامیاں بھی ہوں تو ان کو سپورٹ کرنے سے ہی ورلڈکلاس پلیئرز بنیں گے،نوجوان کرکٹرز غلطیاں بھی کریں گے، وہ آتے ہی بابر اعظم کی طرح تو نہیں کھیلنا شروع کر دیں گے، پلیئرز بننے میں ٹائم لگتا ہے، تجربات کرنا چاہئیں، میں اس کی حمایت کرتا ہوں، اس طرح ہماری قوم اور میڈیا والوں کو پتہ چلے گا کہ کھلاڑی کے تجربے کی بھی اہمیت ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے سینئرز کی جس طرح کی پرفارمنس تھی انہیں اس طرح سے عزت نہیں ملی، مجھے لگتا ہے اس سیریز کے بعد ہماری قوم اور میڈیا کی طرف سے انہیں بہت زیادہ عزت ملے گی، ہم لوگ ہی اپنے پلیئرز پر تنقید کرتے ہیں، پرفارم کریں بھی تو ایک تلوار لٹکی رہتی ہے، رضوان اور بابر اعظم پر سست رفتاری سے کھیلنے پر تنقید ہوتی رہی ہے، ان کے اسٹرائیک ریٹ پر باتیں ہوتی ہیں۔شاداب خان نے کہا کہ پی ایس ایل میں اچھے اسٹرائیک والے بیٹرز کی قومی ٹیم میں شمولیت عوام کا ہی مطالبہ تھا، اب ہمیں نوجوانوں کو سپورٹ بھی کرنا چاہیے۔ٹیم کی سلیکشن میں سینئرز کو نظر انداز کرنے کے سوال پر انھوں نے کہا کہ مستقبل کی ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہی نوجوان کرکٹرز کو مواقع دینے کا فیصلہ کیا تھا، کنڈیشنز بھی افغان بولنگ کیلیے بہت زیادہ سازگار تھیں، نئے کھلاڑی نروس بھی ہوتے ہیں، کھلاڑی تیسرے میچ میں بھی پرفارم نہیں کرتے تب بھی ہمیں سپورٹ کرنا چاہیے، خوش قسمتی ہم ابتدائی مقابلوں میں ہی پرفارم کرنے میں کامیاب ہوگئے، کئی کھلاڑیوں میں ٹیلنٹ ہوبھی تو سیٹ ہونے میں وقت لگتا ہے، اگر ایک پلیئر کو لاؤ اور نکال کر دوسرا لے آؤ تو ٹیم بھی نہیں بنتی۔میچز میں غلطیاں ہونے کے سوال پر انھوں نے کہا کہ اگر مگر تو بہت کی جاسکتی ہے کہ ایسا کرتے تو ویسا ہوتا مگر اس سیریز کا مقصد ہی کچھ اور تھا، طویل مدت منصوبہ بندی کے تحت ورلڈکپ سمیت مستقبل کے اہداف پر نظر ہے، انٹرنیشنل کرکٹ میں کھلاڑی اپنی ناکامیوں سے بھی سبق سیکھتے ہیں، اس کا آگے چل کر پاکستان کرکٹ کو بھی فائدہ ہوگا،ان کرکٹرز کی کارکردگی میں بھی بہتری دیکھنے کو ملے گی۔نوجوان کرکٹرز کو بہت جلد عالمی سطح پر کھیلنے کا موقع دیئے جانے کے سوال پر انھوں نے کہاکہ سوال تو سلیکشن کمیٹی سے بنتا ہے مگر اگر انھیں نہ کھلائیں تو کہا جاتا ہے کہ آزمایا کیوں نہیں جارہا، آپ ہی بتائیں کہاں ان پلیئرز کو صلاحیتیں نکھارنے کے مواقع فراہم کریں، کرکٹرز نے ڈومیسٹک میں پرفارم کیا تو فرنچائزز نے اپنی ٹیموں میں لیا،پی ایس ایل میں کارکردگی دکھائی تو سلیکٹرز کی نظروں میں آئے،انھوں نے خود کو قومی ٹیم کا حقدار ثابت کیا تو منتخب ہوئے،ناکامیاں اور کامیابیاں تو آئیں گی۔ان کا کہنا تھا کہ ایک میچ یا سیریز سے نہ کوئی ہیرو بنے گا، نہ ہی اس کو ناکام کہہ سکتے ہیں، دوسرے میچ میں نسیم شاہ کو چھکا نہ لگتا تو صورتحال مختلف ہوتی مگر کوئی نہیں جانتا کہ زمان خان اوور کرواتے تو کیا ہوتا جو میری سمجھ میں آیا فیصلہ کیا۔