دنیا کے خوشحال ترین ممالک کی فہرست محض ایک دھوکا

Published: 22-08-2023

Cinque Terre

روم، اٹلی: ورلڈ ہیپی نیس رپورٹ ہمیں بتاتی ہے کہ فن لینڈ، ڈنمارک، آئس لینڈ، ہالینڈ اور اسرائیل دنیا کے خوشحال ترین ممالک میں سرفہرست ہیں جبکہ فلسطین جو کئی دہائیوں سے اسرائیلی دہشتگردی کا نشانہ بن رہا ہے، 99ویں نمبر پر ہے۔ہر سال اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ تنظیم ایک رپورٹ شائع کرتی ہے جس میں “خوشی” کی بنیاد پر ممالک کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔ لیکن ناقدین نے اس کے طریقہ کار میں تضادات اور تعصبات کی نشاندہی کی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ اس درجہ بندی کے طریقہ کار میں امیر مغربی اقوام کی طرف بظاہر جھکاؤ نظر آتا ہے جو صدیوں کے نوآبادیاتی استحصال کو نظر انداز کرتے ہیں جس میں دوسرے ممالک کی دولت کو لوٹا گیا اور اپنے ملکوں میں لے جایا گیا۔2023 کے زیادہ تر خوشحال ترین ممالک یورپ میں ہیں۔ مثال کے طور پر، فن لینڈ دنیا کے سب سے خوشحال ملک کے طور پر سرفہرست ہے اور گزشتہ چھ سالوں سے ہے۔ لیکن اس حقیقت پر پردہ ڈالا جاتا ہے کہ اس ملک کے شہری دیگر یورپی ممالک کی بنسبت سب سے زیادہ اینٹی ڈپریشن دوااستعمال کرتے ہیں۔ یہی بات آئس لینڈ کیلئے بھی درست ہے جو دوسرے نمبر پر ہے اور سویڈن کے لیے بھی جو چھٹے نمبر پر ہے۔دریں اثنا ورلڈ ہیپی نیس رپورٹ میں سب سے کم خوشحال  ملک ہندوستان ہے جو کہ 126 ویں نمبر پر ہے۔ ایک اور مسابقتی رپورٹ جسے گلوبل ہیپی نیس رپورٹ کے نام سے جانا جاتا ہے، نے کام اور روز مرہ معمولات کے توازن کی بنیاد پر چین کو دنیا کا سب سے خوشحال ترین ملک قرار دیا ہے۔اسی طرح اقوام متحدہ کی ورلڈ ہیپی نیس رپورٹ میں ممالک کی فی کس جی ڈی پی مجموعی طور پر خوشحالی کے تعین کا سب سے اہم عنصر ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس جی ڈی پی شہریوں میں آمدنی کے عدم مساوات کو مدنظر نہیں رکھا جاتا۔ یہ ہمیں کچھ نہیں بتاتا کہ ملک کی دولت کس کو ملتی ہے اور کس کو نہیں اور نہ ہی یہ آگاہی فراہم کرتا ہے کہ اس دولت کا کتنا حصہ چند لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ امریکہ جو خوشحالی میں 15 ویں نمبر پر ہے، کسی بھی دوسرے ترقی یافتہ ملک کی بنسبت آمدنی میں نمایاں طور پر عدم مساوات اپناتا ہے۔دوسری جانب گیلپ کی ویب سائٹ کا دعویٰ ہے کہ وہ خوشحالی کی رپورٹ میں اعداد و شمار کیلئے کسی ملک کی پوری شہری آبادی اور غیر ادارہ جاتی بالغ آبادی کا سروے کرتے ہیں لیکن اس میں وہ آبادی شامل نہیں ہوتی جو جیلوں، نرسنگ ہومز اور سینئر سینٹرز جیسے اداروں میں رہتی ہیں۔ نیز محققین ان علاقوں میں شہریوں کا سروے نہیں کرتے جن کے بارے میں ان کا خیال ہوتا ہے کہ یہاں کسی خطرے کے سبب ان کا سروے کرنا مناسب نہیں۔