بھارت میں انتخابات سے قبل اترپردیش میں مدرسوں پر پابندی عائد

Published: 24-03-2024

Cinque Terre

نئی دلی: بھارت میں عام انتخابات سے قبل سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں عدالت نے مدرسوں پر پابندی عائد کردی جہاں وزیراعظم نریندر مودی کی ہندوقوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) برسراقتدار ہے۔خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق الہ آباد کی عدالت کے مذکورہ فیصلے سے نریندر مودی کی حکمران قوم پرست جماعت بی جے پی اور مسلمانوں کے درمیان انتخابات سے قبل ہی دوریاں مزید بڑھ جائیں گی اور اس کے ساتھ ہی اترپردیش میں مدارس کے انتظام سے متعلق 2004 کے فیصلہ منسوخ ہوگیا ہے۔بھارتی وکیل انشومن سنگھ راٹھور کی اپیل کی بنیاد پر دو رکنی بینچ میں شامل ججوں سبھاش ودیارتھی اور ویوک چوہدری نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ریاستی حکومت یہ یقینی بنائیں کہ 6 سال سے 14 سال کے درمیانی عمر کے طبلہ باقاعدہ طور پر رجسٹرڈ اداروں میں داخلوں سے محروم نہ رہیں۔اترپردیش میں مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے سربراہ افتخار احمد جاوید نے کہا کہ الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے سے 25 ہزار مدرسوں کے 27 لاکھ طلبہ اور 10 ہزار اساتذہ متاثر ہوں گے۔اترپردیش کی حکمران بی جے پی کے ترجمان راکیش تریپاٹھی نے بیان میں کہا کہ وہ مدرسوں کے خلاف نہیں ہیں اور مسلمان طلبہ کی تعلیم کے حوالے سے فکرمند ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم کسی مدرسے کے خلاف نہیں ہیں لیکن ہم امتیازی سلوک کے خلاف ہیں، ہم غیرقانونی فنڈنگ کے خلاف ہیں اور عدالت کے فیصلے کے بعد مزید اقدامات کے حوالے سے حکومت فیصلہ کرے گی۔بی جے پی کی اقلیتی ونگ کے قومی سطح پر سیکریٹری اور مدرسہ عہدیدار جاوید نے کہا کہ وہ اپنی جماعت کی ترجیحات اپنی برادری کے درمیان پھنس گئے ہیں اور کئی مسلمان انہیں فون کر رہے ہیں کہ مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان کے دوران یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔اترپردیش کی حکومت نے مدرسوں کو فنڈنگ پروگرام جنوری میں بند کردیا تھا، جس کے نتیجے میں 21 ہزار اساتذہ بے روزگار ہوگئے تھے۔جاوید نے کہا کہ عدالت کا فیصلہ ریاست کے تمام مدارس پر نافذ ہوتا ہے چاہے اس کو فنڈنگ نجی سطح پر ہورہی ہے یا پھر حکومت فنڈز فراہم کر رہی ہے۔عدالت کی جانب سے وقت کا تعین نہیں کیا گیا ہے لیکن جاوید نے بتایا کہ ممکنہ طور پر مدارس کو فوری بند نہیں کردیا جائے گا۔ادھر ریاست آسام میں بھی بی جے پی کی حکومت ہے اور وہاں سیکڑوں مدرسوں کو روایتی اسکولوں میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔خیال رہے کہ بھارت میں اپریل اور جون کے درمیان عام انتخابات شیڈول ہیں اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ نریندر مودی کی بی جے پی ایک مرتبہ پھر اقتدار سنبھالے گی لیکن مسلمانوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے بی جے پی کے اراکین اور ان سے منسلک افراد کو اسلام کے خلاف نفرت انگیزی پھیلانے اور مسلمانوں کی جائیدادوں کونقصان پہنچانے کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔دوسری جانب نریندر مودی اس بات سے انکاری ہیں کہ بھارت میں مذہبی بنیاد پر کوئی امتیاز برتا جاتا ہے اور بی جے پی کی حکومت کا مؤقف ہے کہ وہ تاریخی غلطیوں کو درست کر رہی ہے، جس میں حال ہی میں افتتاح کیے گئے ہندو مندر بھی شامل ہے جو 16 ویں صدر میں تعمیر ہونے والی بابری مسجد کی جگہ تعمیر کیا گیا ہے اور بابری مسجد کو ہندو انتہاپسندوں نے 1992 میں شہید کردیا تھا۔