اسلام آباد ہائیکورٹ؛عمران خان اور شاہ محمود قریشی سائفر کیس سے بری

Published: 04-06-2024

Cinque Terre

 اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس سے بری کرتے ہوئے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیلیں منظور کرلیں۔ہائی کورٹ میں سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی اپیلوں پر سماعت ہوئی، جس میں سماعت کے بعد عدالت نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سزاؤں کو کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں کیس سے بری کردیا۔سائفر کیس، بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی اپیل پر مختصر فیصلہ جاریاسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس کے حوالے سے مختصر تحریری فیصلہ جاری کردیا، جس میں 30 جنوری کے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا گیا ہے۔ تحریری فیصلے میں عدالت نے لکھا کہ تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی، بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو 15 اگست کی ایف آئی آر کے الزامات سے بری کیا جاتا ہے۔عدالت نے تحریری حکم نامے میں لکھا کہ بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کسی دوسرے مقدمے میں گرفتار نہیں تو رہا کردیا جائے۔بانی پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل دیے کہ اس متعلق کوئی دستاویز نہیں کہ اعظم خان نے سائفر بانی پی ٹی آئی کو دیا، اگر سائفر گم ہوگیا تو پھر سائفر پاس رکھنے کا چارج کیسے لگ سکتا ہے؟ میری استدعا ہے ملزمان کو ڈسچارج کیا جائے، عدالت میں کسی مخصوص ملک کا نہیں بتایا گیا جس کے ساتھ تعلقات خراب ہوئے۔چیف جسٹس نے کہا کہ گزشتہ سماعت پر پراسیکیوشن کی جانب سے کہا گیا تھا کہ کیس کو ٹرائل کورٹ واپس بھیج دیں اس میں خامیاں ہیں۔سلمان صفدر نے جواب دیا کہ ہمیں اس کیس میں تین ماہ ہو گئے ہیں ہم بہت آگے نکل گئے ہیں، تیسری دفعہ کیس ریمانڈ بیک کرنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔عدالت نے اسپیشل پراسیکیوٹر سے کہا کہ آپ محض یہ کہہ رہے ہیں تعلقات خراب ہو سکتے تھے ، کیا صرف اس پر کسی کو سزائے موت دے سکتے ہیں یا دس سال جیل میں رکھ سکتے ہیں کہ خراب ہو سکتے تھے، قانون کی منشا یہ نہیں ، بانی پی ٹی آئی نے جان بوجھ کر سائفر کاپی اپنے پاس رکھی اس سے متعلق بتائیں۔اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ گواہ کے مطابق بانی پی ٹی آئی کو بار بار کہا گیا سائفر کاپی کے ساتھ یہ نا کریں ، 342 کے بیان میں بانی پی ٹی آئی خود مان رہے ہیں۔عدالت نے کہا کہ اگر وہ کہہ رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں جان بوجھ کر کہہ رہے ہیں ، آپ نے ثابت کرنا ہے، سپریم کورٹ کا قانون واضح ہے جہاں ملزم تسلیم بھی کر لے تو پراسیکیوشن نے ثابت کرنا ہے ، اگر آپ ٹرائل کورٹ کو کاپی دیکھا دیتے تو پھر پراسیکوشن کا کیس بن سکتا تھا، جہاں اعظم خان کہہ رہے ہیں وزیر اعظم نے مجھے کہا ملٹری سیکرٹری اور اسٹاف کو کہو کہ وہ ڈھونڈیں ، تو پھر جان بوجھ کر اپنے پاس رکھنے والی بات تو بھول جائیں۔عدالت نے اسپیشل پراسیکیوٹر سے پوچھا کہ اسٹیٹ سیکورٹی کیسے خطرے میں پڑی ؟ اس حوالے سے بتائیں ، اگر بانی پی ٹی آئی نے گم کر دیا تو اسکے اثرات کیا ہوئے ؟ جب ہم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ اس کے اثرات کیا ہوئے تو پھر کیا ہو گا؟ شہادت میں کہاں لکھا ہوا ہے کہ قانون میں تھا کہ سائفر کی کاپی واپس کرنا تھی ، ریکارڈ پر ایسا کچھ نہیں کہ بانی پی ٹی آئی اس کے اثرات سے آگاہ تھے، آپ کی جو رولز بک ہے اس تک مخصوص لوگ ہی رسائی حاصل کر سکتے ہیں ، جرم آپ نے پورا ثابت کرنا ہوتا ہے ، جلدی میں نا کراتے اور آرام آرام سے کرا لیتے تو یہ سب کچھ ٹھیک ہو جاتا، کیا دنیا میں کوئی جسٹیفائی کر سکتا ہے کہ دوپہر کو 342 کا بیان مکمل ہوتا ہے اور 77 صفحے کا فیصلہ آجاتا ہے ، آپ بھی کہہ سکتے تھے آپ نے بھی غیر معمولی جلدی تیزی دیکھائی۔بعد ازاں عدالت نے سائفر کیس کا محفوظ کیا گیا فیصلہ سنا دیا، جس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلیں منظور کرتے ہوئے کیس سے بری کردیا۔واضح رہے کہ ٹرائل کورٹ نے 30 جنوری کو دونوں کو دس دس سال قید کا حکم سنایا تھا۔