وقار بھائی مایوس نہ کرنا

Published: 05-08-2024

Cinque Terre

اگر آپ سے پاکستان کرکٹ کی تاریخ کے 3 عظیم ترین فاسٹ بولرز کے نام پوچھے جائیں تو یقینی طور پر ان میں سے ایک وقار یونس بھی ہوں گے، ان کی خطرناک یارکرز نے بیٹرز کا جینا دوبھر کیا ہوا تھا،800 سے کچھ کم انٹرنیشنل وکٹیں لینا کوئی آسان کام نہیں ہے۔وقار یونس نے ریٹائرمنٹ کے بعد کوچنگ اور کمنٹری سمیت مختلف ذمہ داریاں سنبھالیں، پی سی بی کے ساتھ مختلف حیثیتوں سے وہ وابستہ رہے لیکن سفر کا اختتام خوشگوار نہ رہا، کھلاڑیوں کے ساتھ اختلافات بھی سامنے آئے، نتائج جیسے بھی رہے ان کی نیت صاف تھی، ذاتی انا کو کبھی ترجیح نہ دی ورنہ اپنے سے جونیئر مصباح الحق کا نائب کوچ بننا کبھی قبول نہیں کرتے۔جب کبھی انھیں بورڈ نے آواز دی وہ آسٹریلیا سے پاکستان چلے آئے،اس بار بھی یہی ہوا، چیئرمین پی سی بی محسن نقوی اپنے طور پر ملکی کرکٹ کی بہتری کیلیے بہت کچھ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، البتہ وقت کی کمی مسئلہ ہے،وزیر داخلہ ہونے کی وجہ سے وہ بہت مصروف رہتے ہیں،اس وجہ سے تنقید بھی ہوئی، پی سی بی کا مسئلہ کرکٹرز سے دوری ہے، وکیل صاحب ترقی کرتے کرتے سی او او بن گئے، واہلہ بھی ڈائریکٹر انٹرنیشنل کرکٹ کی پوسٹ تک پہنچنے میں کامیاب رہے، چیئرمین تو عموما نان کرکٹر ہی ہوتا ہے۔حالیہ عرصے میں رمیز راجہ کو اتنی بڑی پوسٹ سونپنے کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑا تھا، انھوں نے اپنا نام زندہ رکھنے اور کریڈٹ لینے کیلیے پاکستان جونیئر لیگ کرا دی جس پر اربوں روپے پھونک دیے گئے، محسن نقوی سے مجھ سمیت بہت سے صحافیوں و دیگر شخصیات نے یہ درخواست کی تھی کہ وہ کسی کرکٹر کو ساتھ لائیں،اب انھوں نے ایسا کر لیا اور کرکٹنگ معاملات وقار یونس کو سونپ دیے ہیں۔البتہ اس حوالے سے میڈیا میں اشتہار بعد میں آنا جگ ہنسائی کا باعث بنا،یا تو وقار یونس کی تقرری کی بات لیک ہی نہ ہوتی اور اشتہار کے بعد ہی اعلان کیا جاتا،جب وہ کام بھی سنبھال چکے تو اشتہار جاری کرنا مضحکہ خیز لگا، ویسے پی سی بی کی یہ برسوں کی روایت ہے ،تقرری کے بعد رسمی کارروائی کیلیے اشتہار جاری کرتے ہیں، موجودہ چیئرمین کو اس کا کوئی مناسب حل ڈھونڈنا چاہیے۔پاکستان کرکٹ کو ان دنوں کئی مسائل کا سامنا ہے، سب سے بڑا مسئلہ ٹیم میں اتحاد کی کمی ہے، یہی کھلاڑی پہلے اچھا پرفارم کر رہے تھے لیکن بڑھتی پلیئرز پاور دیکھ کر جب ان پر divide and rule کا آزمودہ فارمولہ چلایا گیا تو ایک دوسرے کے دشمن بن گئے، سب کپتانی کے خواب دیکھنے لگے،اس کا اثر ٹیم کی کارکردگی پر پڑا، اب پانی سر سے اونچا ہو چکا، وقار یونس کی بڑی عزت ہے، انھیں چاہیے سب سے پہلے بابر اعظم اور شاہین آفریدی کو بلائیں اپنے ساتھ بٹھائیں اور اختلافات ختم کرنے کا کہیں، پھر دونوں کو ایک کمرے میں اکیلا چھوڑ کر یہ کہہ کر باہر آ جائیں کہ دل صاف کر کے ہی آنا، ایک بار اگر ماضی والا ماحول واپس آ گیا تو یہی ٹیم آپ کو چیمپئنز ٹرافی جتوا کر دے سکتی ہے۔لیگز کے این او سی کا بھی بڑا ایشو ہے، سینئر کھلاڑی کینیڈا سے ڈالرز نہ ملنے پر دل میں غبار لیے بیٹھے ہیں لیکن حالات ایسے نہیں کہ غصے کا اظہار کر سکیں، وقار یونس کو اس حوالے سے بھی پالیسی بنانا پڑے گی، اگر کسی کو نقصان ہو رہا ہے تو کچھ ازالہ بورڈ کر دے تو فرق نہیں پڑے گا، محسن نقوی کو چاہیے کہ شعبہ انٹرنیشنل کرکٹ کو وقار یونس کے انڈر کر دیں، کوئی سیریز رکھنی ہو، شیڈول کی تیاری کا معاملہ ہو،یہ سب کام ایک کرکٹر کرے گا تو بہتر رہے گا۔ابھی تو یہ حال ہے کہ جب دیگر ٹیمیں امریکا میں ورلڈکپ کی تیاریاں کر رہی تھیں تب پاکستانی ٹیم انگلینڈ میں کھیلنے میں مصروف تھی، یہ نہیں ہونا چاہیے کہ صرف بطور ’’کرکٹرز فیس (چہرہ) ‘‘ وقار یونس کو رکھا جائے، کچھ بھی ہو ذمہ داری ان پر ڈالی جائے، انھیں لائے ہیں تو مکمل اختیارات دیں، سلیکشن کمیٹی بھی بنانے دیں، کپتان کا فیصلہ کرنے میں بھی اختیار دیں، پھر بھی اگر خدانخواستہ مناسب نتائج نہ سامنے آئیں تو ضرور سوال کیے جائیں۔بدقسمتی سے پاکستان میں انگریزی سے واقفیت رکھنے والے پڑھے لکھے کرکٹرز کا فقدان ہے، آپ کے پاس زیادہ آپشنز نہیں ہیں، سب سے پہلے وسیم اکرم کو بورڈ میں لانے کی کوشش ہوئی لیکن انھوں نے انکار کر دیا، اب وقار یونس آئے ہیں، اسی طرح ڈومیسٹک کرکٹ کے معاملات بھی کسی سابق کرکٹر کو سونپنے چاہیئں۔محسن نقوی نے اسکول، کالجز اور یونیورسٹیز کی سطح پر مقابلے کرانے کا بہترین فیصلہ کیا ہے،اس سے یقینی طور پر ملک کو نیا ٹیلنٹ ملے گا،اسی طرح ڈومیسٹک کرکٹ کو بھی بہتر بنانا چاہیے،وہیں سے پاکستان کی مضبوط بینچ اسٹرینتھ تیار ہوگی، پی سی بی ڈومیسٹک سیٹ اپ میں پھر تبدیلی لانے والا ہے، بدقسمتی سے ہر  بار بورڈ میں تبدیلی کے بعد ایسا ہی ہوتا ہے، البتہ اس کا فائدہ کتنا ہے یہ دیکھنے والی بات ہوگی۔مجھے بعض سابق کرکٹرز نے بتایا ہے کہ پلانز تو اچھے ہیں، اگر عمل ہو گیا تو یقینی طور پر بہتری ہی آئے گی۔ کرکٹ ہمارا واحد ایسا کھیل بچا ہے جس میں اب بھی عالمی ٹائٹلز جیتنے کی امیدیں باقی ہیں، گوکہ ٹیم کی اس سال ورلڈکپ میں کارکردگی اچھی نہیں رہی تھی لیکن بہتری لانا ناممکن نہیں ہے، وقار یونس کی تقرری اس حوالے سے مثبت قدم ہے،انھیں سب کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔اچھاہوا کہ بورڈ نے آج وضاحت جاری کر دی کہ ڈسپلنری کمیٹی بن رہی ہے نہ کسی کرکٹر کے خلاف کوئی کارروائی ہوگی، ورنہ افواہوں کا بازار گرم تھا، کھلاڑیوں کو اس وقت سزا نہیں اعتماد دینے کی ضرورت ہے، کرکٹنگ وجوہات کی بنیاد پر کسی کو بھی آرام کرا دیں لیکن ڈسپلنری ایکشن کے نام پر ڈراپ کرنا مناسب نہ ہو گا، یقینی طور پر وقاریونس بھی یہ بات سمجھتے ہوں گے، ماضی میں بطور کوچ یا منتظم جیسا بھی وقت گذرا وقار بھائی اس بار مایوس نہ کرنا،سب کو آپ سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔