سینیٹ میں 26ویں آئینی ترمیم 2 تہائی اکثریت سے منظور کرلی گئی

Published: 20-10-2024

Cinque Terre

سینیٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کےلیے شق وار ووٹنگ کے بعد ایوان نے تمام 22 شقوں کی منظوری دے دی۔چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت ایوان بالا کے اجلاس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے 26ویں آئینی ترمیم کا بل ایوان میں پیش کیا، چھبیسویں آئینی ترمیم کے حق میں 65، مخالفت میں 4 ووٹ ڈالے گئے۔آئینی ترامیم کے حق میں حکومتی ووٹ 58، بی این پی مینگل کے 2، جے یو آئی کے 5 ووٹ شامل ہیں، سینیٹ نے آئین کے آرٹیکل 175اے میں ترمیم کی منظوری دے دی۔آئینی ترمیم کے تحت چیف جسٹس پاکستان کی تقرری کی مدت کی حد تین سال ہوگی، ترمیم کے مطابق چیف جسٹس پاکستان 65 سال کی عمر کی حد پر پہنچنے پر ریٹائر ہو جائیں گے۔چیف جسٹس پاکستان کی تقرری پارلیمان کی 12 رکنی خصوصی کمیٹی کرے گی،چیف جسٹس کی تقرری کے لیے تین سینئر ترین ججز کے نام پیش کیے جائیں گے۔اجلاس میں چیئرمین سینیٹ نے اپوزیشن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ صرف پانچ لوگ ایوان میں بیٹھے ہیں، گنتی کیا کروں؟چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ سینیٹ کی گیلری صاف کرواکے دروازے بند کردیے جائیں، لابیز اور وزیٹر گیلری کو خالی کردیا جائے۔ میں نے قومی اسمبلی میں 104 ترامیم پاس کروائی ہیں۔بعدازاں آئینی ترمیم کی شق وار منظوری کیلئے سینیٹ کے ایوان کے دروازے بند کر دیے گئے اور 26ویں آئینی ترمیمی کی شق وار منظوری کا عمل شروع ہوگیا۔شق نمبر 2: پاکستان کا ہر شہری صاف،صحت مند ماحول کا حق دار ہے، آئین کے تحت شق وار منظوری میں ہر شق کیلئے دوتہائی اکثریت ہونا لازم ہے، 65 ارکان نے شق نمبر 2 کے حق میں ووٹ دے دیا، حکومت کا نمبر 58 سے بڑھ کر 65 ہوگیا۔سینیٹ ایوان میں جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) ف کی پہلی ترمیم پیش کردی گئی، سینیٹر کامران مرتضیٰ نے ایوان میں جے یو آئی ف کی ترمیم پیش کر دی۔سینیٹر کامران مرتضیٰ ترمیم پیش کرتے ہوئے کہا کہ ربا کو ختم کیا جائے، ربا کو یکم جنوری 2028 سے پہلے ملک سے ختم کر دیا جائے۔سینیٹ میں آئینی ترمیم پیش کرنے کی تحریک کے خلاف 4 ووٹ آئے۔اپوزیشن کی جانب سے رانا ثناء اللّٰہ اور اٹارنی جنرل کو باہر بھیجنے کا مطالبہ کیا گیا، جس پر حکومتی ارکان سینیٹ نے کہا کہ یہاں بیٹھنا ان کا آئینی حق ہے ۔سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ جب بل منظور ہوگا تو ڈویژن سے ہوگا،اس وقت ووٹ گنا جائے گا۔وزیر قانون نے کہا کہ پارلیمان میں موجود سیاسی جماعتوں کو مدعو کیا گیا، جے یو آئی اور اتحادی جماعتوں کا ایک مسودے پر اتفاق ہوا، متفقہ آئینی ترمیم پر سینیٹر کامران مرتضیٰ کی چند ترامیم کا علم ہوا۔اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آئینی ترمیمی بل پر بات ہوئی جس پر کمیٹی تشکیل دی گئی، کمیٹی میں تمام پارلیمانی جماعتیں تھیں، اپوزیشن سے بھی بات کی، جے یو آئی کی مشاورت سے مسودہ سے اتحادی جماعتوں کا اتفاق رائے ہوا۔وزیر قانون نے کہا کہ آئینی ترمیمی بل کو ضمنی ایجنڈا پر زیر غور لایا جائے۔انہوں نے کہا کہ ججز تقرری طریقہ کار کو اٹھاوریں ترمیم میں تبدیل کیا گیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ہمیشہ کہا وہ کسی توسیع میں دلچسپی نہیں رکھتے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ مدت پوری کرکے چلے جائیں گے۔اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سپریم کورٹ میں آئینی بینچز سے متعلق ترمیم دی گئی ہے، ایک چیف جسٹس نےدروازہ کھولا اور از خود نوٹس کی یلغار ہوگئی، ہماری عدالت نے ملک کے منتخب وزرائے اعظموں کو گھر بھیجا۔وزیر قانون نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کے پاس ججزکی کارکردگی جانچنے کا بھی اختیار ہونا چاہیے، آئینی بینچز کا تقرر جوڈیشل کمیشن کرے گا، آئینی بینچ قائم کیا جارہا ہے، ججز کی تقرری جوڈیشل کمیشن کرے گا،چیف جسٹس کی تقرری کی معیاد مقرر کردی گئی ہے، چیف جسٹس آف پاکستان کی معیاد تین سال ہوگی، چیف جسٹس کا تقرر تین سینئر موسٹ ججز میں سے ہوگا، 12رکنی پارلیمانی کمیٹی دو تہائی اکثریت سے چیف جسٹس کے نام پر اتفاق کرے گی۔اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ بنیادی حقوق میں صاف ماحول کا حق بھی شامل ہوگا،صوبوں میں بھی آئینی بینچز کی گنجائش پیدا کی گئی ہے، ایوان آئینی ترمیمی بل کو منظور کرے۔انہوں نے کہا کہ اچھی نیت کے ساتھ ہم نے کام شروع کیا، مولانا فضل الرحمان کے شکر گزار ہیں، پورے ایوان سے گزاش کروں گا بل پاس کروانے کے لیے ووٹ دیا جائے، پاکستان کے عام آدمی کو جلد اور سستا انصاف فراہم کرنے کیلئے یہ چیزیں کی گئی ہیں،  آئینی ترمیم بل میں 9 اے آرٹیکل کا اضافہ کیا گیا ہے۔ سینیٹ سے آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے دو تہائی یعنی 64 ووٹ درکار  ہیں، حکومت کو ایک ووٹ کی کمی کا سامنا ہے، سینیٹ میں حکومتی بینچوں پر اس وقت پیپلز پارٹی کے 24، مسلم لیگ ن کے 19، بلوچستان عوامی پارٹی کے 4 جبکہ ایم کیو ایم کے 3 سینیٹرز ہیں۔ حکومت کو 4 آزاد ارکان، اے این پی کے 3 جبکہ نیشنل پارٹی اور ق لیگ کے 1،1 رکن کی حمایت بھی حاصل ہے۔ حکومتی دعوے کے مطابق اس کے پاس 59 ارکان موجود ہیں۔جمعیت علماء اسلام کی حمایت کی صورت میں یہ تعداد 64 ہوجائے گی، لیکن چیئرمین سینیٹ کے ووٹ نہ دے سکنے کے باعث حکومتی ووٹ 63 بنیں گے، فی الحال ایک ووٹ کی کمی کا سامنا ہے۔