Published: 15-03-2023
نئی دہلی: بھارت میں ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی حیثیت دینے کا معاملے پر ایک لارجر بینچ بنا دیا گیا۔بھارتی میڈیا کے مطابق سپریم کورٹ نے ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی تسلیم کرنے کی درخواستوں کو پانچ ججوں پر مشتمل لارجر بینچ کے پاس بھی بھیج دیا جہاں اس کیس کی سنوائی اگلے ماہ ہوگئی۔اگر لارجر بینچ نے ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی قرار دیدیا تو بھارت ایشیا میں تائیوان کے بعد ہم جنس پرستوں کو شادی کا حق دینے والا دوسرا ملک بن جائے گا۔یاد رہے کہ بھارت میں برطانوی قانون کے سیکشن 377 کے تحت ہم جنس پرستی کی سزا 10 سال قید تھی تاہم اس سیکشن کو کالعدم کروانے کے لیے 1990 سے مہم جاری تھی۔2009 میں نئی دہلی کورٹ نے ہم جنس پرستی کو ناقابل سزا جرم قرار دیدیا لیکن سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ 2013 میں کالعدم کرتے ہوئے کہا کہ آئین میں تبدیلی صرف پارلیمنٹ سے ہوسکتی ہے۔بعد ازاں 2018 میں بھارتی سپریم کے 5 رکنی بینچ نے اس اہم مسئلے پر طویل بحث کے بعد سیکشن 377 کو منسوخ کردیا تھا جس کے بعد ہم جنس پرستی پر سزا ختم ہوگئی تھی اور یہ ناقابل گرفت جرم نہ رہا۔اس فیصلے کے بعد سے سپریم کورٹ میں ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی قرار دینے کے لیے کئی درخواستیں موصول ہوئی تھیں جس پر مودی سرکار نے بھی اپنا مؤقف عدالت میں جمع کرایا۔مودی سرکار کے حلف نامے میں مؤقف اختیار کیا کہ وہ ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی حیثیت دینے کے خلاف ہیں اور اس پر کوئی فیصلہ دینا عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں بلکہ اس پر صرف پارلیمنٹ میں قانون سازی ہوسکتی ہے۔حلف نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ ہندو مذہب میں خاندان بائیولوجیکل مرد اور عورت پر مشتمل ہوتا ہے۔دیگر مذاہب میں بھی ایسا ہی ہے۔ ہم جنس پرستوں کی شادی سے خاندانی نظام تباہ ہوجائے گا۔بھارتی حکومے کے مؤقف کو سننے کے بعد سپریم کورٹ نے یہ معاملہ پانچ رکنی بینچ کے پاس بھیج دیا۔واضح رہے کہ بھارت میں اب تک 3 لاکھ سے زیادہ ہم جنس پرست جوڑے شادی کر چکے ہیں مگر اکثر اوقات اُنھیں شادی کروانے والے پنڈتوں اور پجاریوں کی جانب سے دھتکار دیا جاتا ہے۔